Skip to main content

قرآن مجید کے بارھواں پارہ کے بارے میں ایک مختصر نوٹ

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے میں ہیں)

۲۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ


(۱) سورۂ ہود میں چار باتیں یہ ہیں:

۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت

۲۔ توحید اور دلائل توحید

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات

۴۔ قیامت کا تذکرہ


۱۔ قرآن کی عظمت:

(۱) قرآن اپنی آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی ، حال ، مستقبل ، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔

(۲)منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔

۲۔ توحید اور دلائل توحید:

ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات:

(۱)حضرت نوح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔

(۲)حضرت ہود علیہ السلام۔۔ ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔

(۳)حضرت صالح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔

(۴)حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب ہوئے۔

(۵)حضرت لوط علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔

(۶)حضرت شعیب علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔

(۷)حضرت موسی علیہ السلام۔۔ فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

۴۔ قیامت کا تذکرہ:

روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی: (۱)بد بخت لوگ (۲)نیک بخت لوگ

بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جب تک اللہ چاہیں گے۔(حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)

نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔


(۲) سورۂ یوسف میں قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام بالتفصیل ہے:​

تمہید:

تمام انبیائے کرام کے قصے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا صرف اسی سورت میں ہے، دوسری سورتوں میں ان کا نام تو آیا ہے، مگر قصہ تھوڑا سا بھی کسی اور سورت میں مذکور نہیں ہے۔

حضررت یوسف علیہ السلام کا قصہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے بہت زیادہ مشابہ ہے، آپ علیہ السلام کے بھی قریشی بھائیوں نے آپ سے حسد کیا، آپ کو مکہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں رہے آپ علیہ السلام غار ثور میں۔ وہ مصر گئے آپ مدینہ گئے۔ وہ وزیر بنے آپ پہلی اسلامی مملکت کے حاکم بنے۔ بعد میں بھائی ان کے شرمندہ ہوکر آئے، آپ کے سامنے بھی فتح مکہ کے موقع پر سب نے گردن جھکالی۔ انھوں نے کہا: “لاتثریب علیكم الیوم“(آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (و ملامت) نہیں ہے) آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا: ”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔

قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حسین تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، ان کے والد نے انھیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا، باپ کی بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا، جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی، عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قیدخانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ گئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انھیں بتایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔

بصائر و عبر از قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:

(۱)مصہبت کے بعد راحت ہے۔ (۲)حسد خوفناک بیماری ہے۔ (۳)اچھے اخلاق ہر جگہ کام آتے ہیں۔ (۴)پاکدامنی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ (۵)نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے۔ (۶)ایمان کی برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔ (۷)معصیت پر مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔ (۸)داعی جیل میں بھی دعوت دیتا ہے۔ (۹)موضع تہمت سے بچنا چاہیے۔ (۱۰)جو حق پر تھا اس کی سب نے شہادت دی: اللہ تعالیٰ نے، خود حضرت یوسف علیہ السلام نے، عزیز مصر کی بیوی نے، عورتوں نے، عزیزِ مصر کے خاندان کے ایک فرد نے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

قرآن مجید کے پندرھواں پارہ کے بارے میں ایک مختصر نوٹ

اس پارے میں دو حصے ہیں:​ ۱۔ سورۂ بنی اسرائیل مکمل​ ۲۔ سورۂ کہف کا زیادہ تر حصہ​ (۱) سورۂ بنی اسرائیل میں چار باتیں یہ ہیں: ۱۔ واقعہ معراج ۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ وفساد ۳۔ اسلامی آداب و اخلاق ۴۔ دیگر مضامین ۱۔ واقعہ معراج: معراج جسمانی ہوئی اور جاگنے کی حالت میں۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔ ۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ و فساد: بنی اسرائیل کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ تم لوگ دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے، چنانچہ ایک دفعہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تو بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا گیا، دوسری بار حضرت زکریا اور یحیٰ علیہما السلام کو شہید کردیا تو بابل کا بادشاہ ان پر مسلط ہوگیا۔ ۳۔ اسلامی آداب و اخلاق: (آیات: ۲۳ تا ۳۹) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو، مال کو فضول خرچی میں نہ اڑاؤ، نہ بخل کرو، نہ ہاتھ اتنا کشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے، اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، کسی جاندار کو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کے مال

FIA Jobs 2021 Advertisement | 1140 Jobs in Federal Investigation Agency

  FIA Jobs 2021  advertised the Latest 1140 Jobs in Federal Investigation Agency   on May 22, 2021, in  Islamabad .  The Federal Investigation Agency (FIA) Jobs 2021 advertised for the 1140 New Vacancies. The Candidates must have qualifications  (Bachelors, Intermediate)  to apply for these posts. Applications are invited from suitable candidates for countrywide vacancies in the  Federal Investigation Agency (FIA)  for the positions from BS (01-15) to ensure transparency and merit. The detail of vacancies for recruitment from BS-01 to BS-05 is as under. Latest Jobs in Federal investigation agency 2021 (Phase-II)  includes the following posts: Assistant, Sub Inspector, Stenotypist, UDC, LDC, Assistant Sub Inspector (ASI), Constables, Constable Drivers, Drivers, Dispatch Rider, Naib Qasid, Cook, Chowkidar, and Sweeper. The last date to get this job opportunity is  June 14, 2021. Eligibility Criteria: Gender:  Male and Female Height:  5 ft 6 in (for men), 5 ft 4 in (for women) Age Limit:

قرآن مجید کے تیرھواں پارہ کے بارے میں ایک مختصر نوٹ

اس پارے میں تین حصے ہیں:​ ۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ ۲۔ سورۂ رعد مکمل ۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل (۱) سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ: اس کی تفصیل پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔ (۲) سورۂ رعد میں پانچ باتیں یہ ہیں: ۱۔ قرآن کی حقانیت ۲۔ توحید ۳۔ قیامت ۴۔ رسالت ۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات ۱ ۔ قرآن کی حقانیت: یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔ ۲۔ توحید: آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ ۳۔ قیامت: مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔ ۴۔ رسالت: ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما